کیا سماج کی ذمہ داری صرف یہی ہے کہ وہ ماضی کے ان ہنس مکھ اور خوبصورت کرداروں کے بکھرتے وجود پر ہمدردی کے بیس پچاس روپے دان کر کے تیزی سے گزر جائے اور جب مسجد کے لاؤڈ اسپیکروں پہ انکے مرنے کی خبر گونجے تو دوڑے بھاگے ثواب کمانے قبرستان کی سمت چل پڑے_
یہ زندہ لوگوں کا معاشرہ تو نہیں لگتا یہاں پکی سڑکیں بننے کے بعد لوگوں کے دلوں پر بھی جیسے ڈامر جم گیا ہو_
شکیل کچا بھی گوادر کے ان ہزاروں نوجوانوں کی طرح کرسٹل اور آئس پینے کا عادی ہے مگر پہلے اسکی حالت اتنی خراب نہیں تھی_
وہ لوگوں سے دعا سلام اور انتہائی عاجزی و انکساری سے ملتا تھا، اب اسکے لہجے اور برتاؤ میں شدید تلخی آگئی ہے_
آئس کے استعمال سے ہر دوسرا نوجوان اپنا دماغی سنتولن کھوتا جارہا ہے_
کچھ دن پہلے مجھے وہ عورتوں والے لباس پہنے وائی چوکی پہ نظر آیا، میں نے اپنے دوست نصیر سے کہا وہ پیچھے ایف سی کی ویران چوکی کے ساتھ سی پیک کا ایک وارث بیٹھا ہے جاکر اسکی دعائیں سمیٹ لیتے ہیں، نصیر نے مڑتے ہی موٹر سائیکل اسکے سامنے روک دی_ میں نے اسکی خیریت پوچھی، اس نے کوئی جواب نہیں دیا_ میں نے جیب میں سے سوروپے کا نوٹ نکال کر اسکے ہاتھ میں تھما دیا اور وہ دھیمے لہجے میں بول پڑا،
” اب تم جاسکتے ہو، تمہارا کام ختم ہوگیا_”
میں تھوڑی دیر حیران پریشان اسے دیکھتا رہا، وہ پھر بولنے لگا،
” چلے جاؤ، میں نے کہا ناں تمہارا کام ختم ہوگیا_”
دو دن سے میں اسکی تلاش میں نکل پڑا ہوں مجھے وہ کہیں نظر نہیں آیا، پرسوں رات میں نے کیمرے کے سیل اس یقین کے ساتھ چارج کیے کہ شکیل صبح مجھ سے ضرور ٹکرائے گا_
کل جب میں اور نصیر فش ہاربر سے نکلے تو ہمیں مکران آئس پلانٹ کے سامنے شکیل کھڑا نظر آیا_ دو تین لڑکوں نے پہلے سے اسے گھیر رکھا تھا، ہمیں دیکھتے ہی اسکے بوجھل قدم ہماری طرف بڑھنے لگے_ اسکی داہنی آنکھ پر کسی نے مٹی ڈالا تھا اسکی پیشانی اور گال پر بھی دھول جمی تھی_
آئس پلانٹ کے گیٹ کے ساتھ پینے کا پانی رکھا تھا، میں نے اس سے کہا، ” آپ منہ دھو لو تمہاری آنکھ میں مٹی جم گئی ہے_”
” نہیں میں گھر جاکر چہرہ دھو لوں گا، ان کا پانی ضائع ہوجائے گا_”
میں اس انتظار میں تھا وہ جلدی سے چہرہ دھو لے اور میں کیمرے سے اسکی تصویر کیپچر کروں لیکن وہ چہرہ دھونے کیلئے تیار ہی نہیں تھا_
ذہن سے تصویر کھینچنے کا خیال پنچھی کی طرح اڑ گیا، میں نے جیب سے دو پچاس والے نوٹ اسکی طرف بڑھا دیے، اس نے پیسے لیکر نصیر سے ہاتھ ملایا اور مجھ سے ہاتھ ملانے سے منع کر دیا_
میں اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے کھڑا رہا، اس نے ہاتھ ملاتے ہی اپنا پنجہ موٹر سائیکل کی سیٹ پر زور سے دے مارا اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر چیختے ہوئے ہمارے لیے خیر کی دعائیں مانگتے ہوئے رو پڑا_
پہلی بار جب میں نے اسے عورتوں والے لباس میں دیکھا تو میری بھی ہنسی نکل گئی تھی پھر ایک دن اسکی ماسی نے بتایا کہ شکیل کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ اپنی ماں کے کپڑے پہنتا ہے_ اسکی ماں کو گزرے کئی سال بیت گئے_
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک شام شکیل میرے پاس ایک کورا کاغذ لیکر آیا تھا کہ آپ اس میں میری ماں کے علاج معالجے کے متعلق ایک درخواست لکھ کر دے دیں تاکہ میری کچھ مالی مدد ہوسکے_
میں نے اس سے کہا آپکی امی ماسی شریفہ (شرک) تو فوت ہوچکی ہیں، آپ دونوں بھائی جس مکان میں رہتے ہو، بارشوں سے اسکی چھت اور دیواروں پر بھی دراڑیں پڑ گئیں ہیں، وہ کسی بھی وقت گر سکتا ہے_
میں نے اسکے درخواست میں مکان کی مرمت کے واسطے مخیر حضرات سے مدد کی اپیل لکھ کر دی تھی_
شکیل کی والدہ نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اپنے چھوٹے بیٹے جاڑک کے علاج پر خرچ کر دیں_ اس حادثے میں شکیل اور اسکی والدہ بری طرح ٹوٹ گئے تھے کیونکہ گھر کا واحد کفیل جاڑک تھا جو اس زمانے میں گدھا گاڑی چلاتا تھا_اب وہ بھی کرسٹل اور آئس کے نشے کا شکار ہوچکا ہے، آج کل بلال مسجد کے پچھواڑے ایک دکان کا برآمدہ اس نے مسکن بنا رکھا ہے،جاڑک کی دردناک کہانی کو بھی کسی دن قرطاس پر اتارتے ہیں_
ماضی میں ان کا والد ابل شادی بیاہ کی محفلوں میں ڈھول بجاتا تھا، آنکھوں کی بینائی چلے جانے کے بعد وہ لاٹھی اور پڑوس کے ایک کمسن بچے کے سہارے شاہی بازار کی گلیوں میں بھیک مانگتا تھا_
وہ بھی اب دنیا سے پردہ کر چکے ہیں، اب اس بارہ فٹ کی کوٹھی میں شکیل اور جاڑک کے چچا تاج رنگ والا تنہائی کی آغوش میں اکیلے زندگی کا بوجھ اس طرح سے گھسیٹ رہے ہیں جس طرح ایک مرے ہوئے ہاتھی کو چینٹیاں گھسیٹتی ہیں_
شکیل کچا میرے پڑوس میں رہتا ہے اور میں اسے بچپن سے جانتا ہوں_ وہ سورگ دل کا ڈالفن تھا، اس سے ملتے ہی اداس چہروں پر قہقہے اور مسکراہٹ کی بارش برستی تھی_
اسکے لہجے میں لسی جیسی مٹھاس تھی اسکے بولنے کا انداز آبشار کی طرح سننے والوں کی پیاس بجھاتا تھا_
شکیل جس گلی سے گزرتا تھا وہاں سوگ میں ڈوبے لوگ بھی مسکرانے لگتے تھے_
میری بستی میں دو کردار لوگوں کی شادی اور بارات میں دیوانوں کی طرح لطف اٹھاتے تھے، بدل گنوک اور شکیل کچا غیروں کی بارات میں بھی اس وقت تک ناچتے رہتے تھے جب تک بارات دلہن کے دروازے تک نہیں پہنچتی تھی_
میں نے اسے بچپن میں ملاشعبان کی دکان میں رمضان کے مہینے میں لسی بیچتے دیکھا ہے، وہ تھیلوں میں لسی ڈالنے میں اس وقت اتنا مصروف تھا کہ اسے سانس لینے کی بھی فرصت نہیں تھی_
تمام روزے دار صرف شکیل کی توجہ حاصل کرنے میں لگے تھے کہ کب ہم اسے پیسے سونپ دیں اور وہ ہمیں لسی کی تھیلی تھما دے_
اب شکیل کچا کسی دکان کے صحن میں لمحے بھر کیلئے سانس بھرتا ہے تو بچے بڑے اسے گھیر کر اسکے آگے پیچھے پٹاخے پھوڑتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں_
خدا کا شکر ہے قبرستان والی مسجد میں مغرب کی اذان ہوتے ہی شکیل نے سکھ کا سانس لیا اور شیطان کے سارے چیلے پٹاخے جیب میں ڈال کر مسجد کی سمت چلے گئے_
سی پیک کا وارث شکیل کچا جب تک زندہ ہے کیا لوگ ایسے ہی اس کا تماشا بناتے رہیں گے؟
اس کنارے پہ خدا کا ایک نیک بندہ بھی نہیں بستا جو اس ڈالفن کو زندگی کی بہتی دھارا تک پہنچا دے!