گزشتہ دنوں پاکستان کی یونیورسٹیوں پر اِس خاکسار نے جو کالم لکھا تھا اُس پر مختلف اطراف سے حیرت انگیز ردعمل سامنے آیا ،خود سرائی کی بندے کو عادت نہیں سو تھوڑے کہے کو بہت جانیں ۔ستایشی پیغامات بھیجنے والوں کا شکریہ تاہم اِس کالم کے جواب میں ایک ایسے صاحب نے بھی پیغام بھیجا جن کا نہ صرف میں احترام کرتاہوں بلکہ اُن کی بات کو بھی اہمیت دیتا ہوں۔ پیغام یہ تھا:’’آپ نے نارووال یونیورسٹی کا انتخاب کرکے جو تنقید کی ہے اُس سے میں مایوس ہوا ہوں ۔کیا نارووال یونیورسٹی میں پڑھنے والے 7,000 طلباء جن میں سے 5,000 طالبات ہیں، پاکستانی نہیں ؟ یہ بچے شاید کبھی یونیورسٹی کی شکل ہی نہ دیکھ پاتے کیونکہ اِن کے والدین لاہور میں ہاسٹل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔کیاسب کچھ لاہور میں ہونا چاہیے اور اچھی زندگی کا حق صرف اشرافیہ کو ہے؟‘‘ اِس انقلابی پیغام نے مجھے کالم کا دوسرا حصہ لکھنے پر آمادہ کیا ہے ۔
بات نارووال ، سیالکوٹ، لاہور، لیہ، بھکر یا مردان کی نہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں تھوک کے حساب سے یونیورسٹیاں ہونی چاہئیں ؟ کیا یہ ملک ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کا متحمل ہوسکتا ہے ؟ یونیورسٹی اور کالج میں کیا فرق ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔نارووال یونیورسٹی میں 7،000 بچے پڑھتے ہیں ، بہت اچھی بات ہے ، اب ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ یہ یونیورسٹی نہ ہوتی بلکہ ایک کالج ہوتا تو اِس سے اِن طلبا کو کیا فرق پڑتا ؟ ظاہر ہے کہ کچھ فرق نہ پڑتا کیونکہ نارووال یونیورسٹی کوئی ایسا کام نہیں کر رہی جو کسی کالج میں ممکن نہیں تھا۔یہی بات لاہور کی اُن تمام یونیورسٹیوں پر بھی صادق آتی ہے جنہیں کالج سے یونیورسٹی میں تبدیل کیا گیا ہے ، جیسے گورنمنٹ کالج، لاہور کالج، کنیرڈ کالج، ہوم اکنامکس کالج ۔ یہ تمام یونیورسٹیاں عملاً کالج ہیں فقط اِن کے نام کے ساتھ یونیورسٹی کا دُم چھلا لگا دیا گیا ہےاور اِس دُم چھلے کی وجہ سے حکومت کو ہر سال اربوں روپے اضافی خرچ کرنے پڑتے ہیں جو با آسانی اُن سوا دو کروڑ بچوں پر خرچ کیے جا سکتے ہیں جو غربت اور پسماندگی کی وجہ سے اسکول جانے کے قابل نہیں ۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے عرض ہے کہ یہ بچے لاہور کی اشرافیہ کے نہیں ۔لاہور سمیت پورے ملک میں یونیورسٹیوں کی جو بندر بانٹ ہوئی اُس سے وہ کالج بھی برباد ہوگئے جو کسی زمانے میں اِس شہر کے ماتھے کا جھومرتھے ۔ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ لاہور سمیت پورے ملک میں نجی یونیورسٹیوں کے چارٹر بھی اندھا دھند بانٹے گئے ، سابقہ پنجاب اسمبلی کے آخری دن کے اجلاس میں اِن چارٹرز کی دھڑا دھڑ منظوری دی گئی جن کی انگریزی بھی درست نہیں تھی،یہ جس نیک مقصد کے تحت ہوا وہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
یہ نعرہ بہت پُر کشش ہے کہ بھکر کے نوجوان کا بھی حق ہے کہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے ۔لیکن ہم اِس نعرے کے متحمل نہیں ہو سکتےکیونکہ اگر اِس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر درہ آدم خیل سے لے کر ہرنائی تک ہر ضلع ، تحصیل اور یونین کاؤنسل میں یونیورسٹی ہونی چاہیے! اِس ملک کے ہر شہری کا حق بنیادی تعلیم ضرور ہے مگر جب آپ اِس نعرے کی آڑ میں بھکر میں یونیورسٹی بناتے ہیں تو پھر اُس یونیورسٹی کو بھکر کالج سے مختلف ہونا چاہیے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ، یہ سب یونیورسٹیاں دراصل کالج ہیں ،اِن تمام یونیورسٹیوں میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس کا شعبہ فلسفہ عالمی میعار تو کیا ہندوستانی میعار کا ہی ہو۔یونیورسٹی بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ،اِس کے لیے بے تحاشہ وسائل ، پیسہ اور اعلیٰ درجے کے پروفیسر درکار ہوتے ہیں ۔آج ہم جنہیں یونیورسٹیاں کہہ کر خوش ہورہے ہیں وہ یونیورسٹی کہلانے کے لائق ہی نہیں ، نہ ان میں کوئی انفراسٹرکچر ہے اور نہ تحقیق کا ماحول اورنہ سہولیات ، یہ صرف کالج ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کا روپ دھار کر ڈگریاں تقسیم کرنے کا دھندہ شروع کیا ہوا ہے ۔جس ملک میں ڈیڑھ سو سال پرانی یونیورسٹی میں کوئی تحقیق نہ ہو رہی ہو وہاں نارووال، سیالکوٹ اور بھکر میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کی بھلا کیا منطق ہے !
پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سالانہ بجٹ 136 ارب روپے جبکہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ تقریباً 60 ارب روپے ہے اور یہ اُن یونیورسٹیوں پر خرچ ہورہا ہے جو یا تو پہلے کالج تھیں یا پھر گزشتہ چند برسوں میں ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں قائم کی گئیں اور جو عملاً کالج ہیں ۔دنیا میں پیسے کا اِس طرح ضیاع نہیں کیا جاتا ، یونیورسٹیوں کے چارٹر یوں منظور نہیں کیے جاتے اور جامعات ایسے کام نہیں کرتیں ۔ دنیا کی جامعات میں نئی ادویات بنائی جارہی ہیں، بیماریوں کے علاج اور اُن کی تشخیص کے جدید طریقوں پر تحقیق ہو رہی ہے، تشخیصی آلات ایجاد کیے جا رہے ہیں، مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا رہا ہے، کینسر کی وجوہات، پیدائشی نابینا پن کا علاج، موروثیت کی وجہ سے منتقل ہونے والی بیماریاں اور اُن کا سبب بننے والے جینز کی پہچان کرنے کے طریقے دریافت کیے جا رہے ہیں۔دنیا کی جامعات کی توجہ تمام عالمی چیلنجز پر مرکوز ہے، جیسے فوڈ سیکیورٹی، ماحولیاتی آلودگی اور توانائی۔اب تو سمارٹ ٹیکنالوجی کا دور ہےجس کے تحت ہوائی ٹریفک کنٹرول کی جاتی ہے ، موٹر وے سے محصول اکٹھا کیا جاتا ہے ، سامان کی ٹریکنگ کی جاتی ہے اور سمارٹ شہر آباد کیے جا تے ہیں۔یہ ہیں وہ کام جو دنیا کی جامعات میں ہورہے ہیں جبکہ پورے پاکستان کی نجی اور سرکاری جامعات میں سے کوئی ایک بھی جامعہ ایسی نہیں جو اِن کاموں میں سےکچھ کر رہی ہو۔ اِن تمام باتوں کے جواب میں ہمیشہ ایک ہی بات کی جاتی ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں، ایک امریکی یونیورسٹی کا بجٹ ہمارے ایچ ای سی کے بجٹ سے زیادہ ہے ، لہذا ہماری جامعات سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سمارٹ شہر کا ماڈل بنا کر دکھائیں گے ، غیر مناسب مطالبہ ہے۔جی بالکل،یہ وہی بات ہے جو خاکسار نے عرض کی کہ یونیورسٹی بنانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں کہ جلسے میں اعلان کیا اور یونیورسٹی بنا دی ، اِس کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہوتے ہیں ، لہذا جو دو سو ارب روپے اِن نام نہاد یونیورسٹیوں میں جھونکے جا رہے ہیں ، انہیں سو ا دو کروڑ بچوں کی بنیادی تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے ،یہ آئینی تقاضا ہے ۔
ایک اور اہم بات یونیورسٹیوں میں باہمی تعاون کا فقدان ہے ۔ہماری جامعات میں قائم مختلف شعبہ جات ایک دوسرے سے لا تعلق رہ کر کام کرتے ہیں اور یہی حال ایک شہر میں قائم مختلف یونیورسٹیوں کا ہے جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں۔آج آسٹرازینیکا نے اپنا عالمی ہیڈ کوارٹر کیمبرج شہر میں اس لیے منتقل کیاہے کہ اُس کا کیمبرج یونیورسٹی کے23 شعبہ جات کے ساتھ700 سے زائد پراجیکٹس پر کام چل رہا ہے۔’علم کی راہداریاں ‘ کتاب کے مصنف ڈاکٹر سعید بزدارکا کہنا ہے کہ وسائل کی کمی کا ایک حل اسی باہمی تعاون میں پوشیدہ ہے ۔مثال کے طور پر اگر کسی یونیورسٹی کو اپنے شعبہ طبیعات کے لیے ایکس آر ڈی مشین چاہئے تو صدر شعبہ کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اپنی ہی یونیورسٹی کی بغل میں واقعہ کیمسٹری یاانجینئرنگ کےشعبوں سے پتا کرے کہ شاید وہاں یہ موجود ہو، وہاں بھی نہ ملے تو قریبی یونیورسٹی سے پتا کرلے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ دنیا بھر میں اسی طرح ہوتا ہے لیکن ہمارا مسئلہ سستی اور کاہلی بھی توہے نا۔ اک گونہ بے خودی ’ہمیں‘ دن رات چاہیے۔ہمارے باہمی تعاون کا یہ حال ہے کہ 2016 تک یونیورسٹی آف انجینئرنگ ، لاہور کے نارووال کیمپس کے طلبا پریکٹیکل کرنے لیے لاہور جاتے تھےگویاکسی نے اتنی بھی زحمت نہیں کی اِن طلبا کے پریکٹیکل کا بندوبست نارووال میں قائم درجنوں کالجوں میں سے کسی ایک میں کردیا جاتا ۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پیسے کا یہ ضیاع صرف یونیورسٹیوں میں نہیں ہورہا ہے بلکہ سرکار کے ہر شعبے کا یہی حال ہے اور کوئی اِ س سے مستثنیٰ نہیں ۔چونکہ تعلیم کے بجٹ میں کمی کا رونا ہر وقت رویا جاتا ہے اِس لیے ضروری ہے کہ حقائق کو درست رکھا جائے۔بے شک تعلیم کا بجٹ کم ہے مگر جو بجٹ دستیاب ہے ،اُس کا استعمال بھی درست نہیں ہے، ہم اِن کاغذی یونیورسٹیوں کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔بس یہ مدعا ہے ۔
(یہ کالم 17 اپریل 2024 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا )