بلوچستان میں ہائیرایجوکیشن کے تمام اعلیٰ سرکاری دارے(جامعات) گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں جن میں مالی بحران اور انتظامی مسائل سرفہرست ہیں جبکہ درپیش مسائل نے ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کرکے ایک انتہائی تشویشناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔ وحشیانہ معاشی حملوں کے نتیجے میں سرکاری جامعات کے ملازمین اور پروفیسرز ایک ازیت ناک کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ بیس، اکیس گریڈ کے پروفیسر اور اساتذہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور عدم فراہمی سے مسلسل صدمے کا شکار ہیں۔ انہیں ادھار لینے اور بھیک مانگنے پر مجبور کیا جارہاہے۔ سیاسی اشرافیہ اور ان کے گماشتوں کی ان روئیوں کی وجہ سے تعلیم جیسے مقدس پیشے کا وقار شدید مجروح ہورہاہے۔ جو اس جدید نوآبادیاتی اور استحصالی نظام اور اس کے محافظین اور ترجمانوں کے منہ پر ایک زور دار تماچا ہے۔ اس وقت اس بحران کی زد میں سب سے زیادہ جامعہ بلوچستان ہے جو صوبے کا سب سے پہلا اور قدیم اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے جس کا قیام 1970 میں نیپ حکومت کے قائدین کی جدو جہد اور کاوشوں کے نیتجے میں عمل میں آیا تھا جو بلوچستان میں ایک عالمی معیار کی ایک اعلیٰ تحقیقی و تعلیمی ادارہ بنانے کے خواہاں تھے جس کے پہلے چانسلر معروف بلوچ قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو اور وائس چانسلر برصغیر کے ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین تھے یوں جامعہ بلوچستان کو بلوچستان کی مادر علمی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے بلوچستان کی معاشی، معاشرتی، سماجی اور تعلیمی ترقی میں نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج یہ یونیورسٹی ، بلوچستان کی ایک انتہائی معتبر اور اعلیٰ تحقیقی و علمی ادارے کے طور پر جانی پہچانی جاتی لیکن بدقسمتی سے حکمران اشرافیہ کی عدم توجہی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ قدیم درسگاہ آج شدید مالی بحران سمیت ان گنت مسائل کا شکار ہے، ادارے کے ملازمین ، اساتذہ اور پروفیسرز کو نہ وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی کی جاتی ہے اور نہ ادارے کے پنشنرز کو ان کی پنشنین دی جاتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں ہر تین مہینے بعد سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے احتجاجی ریلیاں نکالنی پڑتی ہیں ۔ روڑ بلاک کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک ذہنی کرب اور ازیت کی زندگی میں مبتلا ہیں۔ ان کے بچوں پر بھی اس کے انتہائی منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں بلکہ اس عمل نے ان کی زندگیوں سے ہر خوشی چھین لی ہے وہ معاشرے میں اپنی سفید پوشی کے بھرم کو برقرار رکھنے میں سخت مشکلات کا شکار ہیں بلکہ وہ انتہائی اندوناک کیفیت سے گزر رہے ہیں دوسری طرف آئے روز کی مختلف اسکینڈلز کی وجہ سے ادارے کی مجموعی ساکھ بھی شدید متاثر ہوچکی ہے اور مزید برآں حکام بالا نے یونیورسٹی کو ایک مکمل چھاونی میں تبدیل کردیاہے بلکہ یہ صورت حال بلوچستان کے تمام سرکاری جامعات کی ہے وہاں یونیورسٹیوں کو بھی نوآبادیاتی طرز پرچلایا جارہا ہے جہاں کسی بھی قسم کی علمی و ادبی سرگرمی، کتب میلہ، فکری و تنقیدی مباحث کی اجازت قطا نہیں دی جاتی۔ ان مسائل نے جامعات کو اپاہج اور بانجھ پن کا شکار بنا کر ان کی داخلی خود مختاری تحقیقی و ادارہ جاتی آزادی پرکاری ضرب لگائی ہے۔
دو دہائی قبل بلوچستان میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی لیکن سن دوہزار کے بعد تقریبا ایک درجن کے قریب نئی جامعات اور مختلف کیمپسز قائم کیے گئے۔ اصولی طور پر یہ ایک اچھا اقدام تھا جس کا مقصد بلوچستان کے انتہائی پسماندہ اور دور دراز علاقوں کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم تک ان کی رسائی کو ممکن بنانا تھا لیکن ان تمام جامعات اور کیمپسز کے قیام میں کوئی ہوم ورک اور ٹھوس منصوبہ بندی شامل نہیں تھی اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر نئی جامعات اور یونیورسٹی کیمپسز سیاسی بنیادوں پر صوبائی وزار اور اراکین اسمبلی کے دباؤ پر قائم کئے گئے ہیں اس کی ایک واضع مثال تربت میں خضدار یونیورسٹی آف انجنیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سب کیمپس کا ہے۔ تربت میں سر دست اس کے قیام کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کیونکہ یونیورسٹی آف تربت کے ایکٹ میں پہلے سے ہی انجنیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک الگ فیکلٹی موجود ہے اگر یہی پیسے یونیوسٹی آف تربت کو فراہم کر دئیے جاتے تو وہ اپنی انجنیرنگ فیکلٹی کو فعال بناتا اور علاقے کے نوجوانوں کو بہتر طریقے سے انجنیرنگ کی تعلیم دینے کے مواقع فراہم کرسکتی تھی لیکن سیاسی کریڈٹ اور سیاسی ریٹنگ کے چکر میں کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک الگ سب کیمپس قائم کرکے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ڈالا گیا۔ اسی طرح ضلع پشین میں بیوٹیمز یونیورسٹی کی ایک الگ سب کیمپس قائم کرنے کا بھی کوئی جواز ہی نہیں تھا کیونکہ پشین ایک دور افتادہ علاقہ نہیں ہے بلکہ کوئٹہ سے ایک گھنٹہ سے بھی کم مسافت پر واقع ہے۔ اس طرح نئی جامعات اور نئے کیمپسز کے قیام میں سیاسی زورآوری اور سیاسی کریڈٹ کی کئی واضع اور ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں جس طرح بلوچستان میں سیاسی بنیادوں پر اضلاع بنائے گئے ہیں بالکل اسی طرح نئی جامعات اور نئے کیمپسز بھی قائم کئے گئے ہیں ۔ رخشان اور نصیر آباد ڈویژن جو بلوچستان کے انتہائی پسماندہ اور دور افتادہ علاقے ہیں وہاں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی ہے جبکہ مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع میں تین جنرل یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے مرحلے میں ہر ڈویژن میں ایک ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا پھر اسے مرحلے وار تمام ضرورت مند اضلاع تک پھیلایا جاتا ان کے لیے ایک مضبوط مکینزم بھی بنایا جاتا لیکن اس عمل میں نہ انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے اور نہ میرٹ اور ضرورت کا خیال رکھا گیا سیاسی زور آوری اور بلیک میلنگ نے سب کو روند ڈالا ہے۔
اتنے بڑے اعلیٰ ادارے جب سیاسی دباؤ اور سیاسی ضروریات کی بنیاد پر قائم کئے جائیں تو ان میں سیاسی مداخلت، سفارش اور من پسند لوگوں کی تعیناتیوں اور تقرریوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یوں وائس چانسلرز، پرووائس چانسلرز، رجسٹرار، ڈاریکٹر کیمپسز اور دوسرے اعلیٰ انتظامی آفیسران کی تعیناتی و تقرریوں کے لیے ایک نئی دوڑ لگ گئی اور انتہائی جونئیر بندوں کو بڑے عہدوں پر تعینات کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں جس نے نئی جامعات سمیت بلوچستان کے پرانی جامعہ کو بھی مالی و انتظامی بحران کی طرف دھکیل دیا۔ دوسری طرف سیاسی اشرافیہ نے جامعات کو روزگار کا ایک بہترین ذریعہ سمجھ کر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے انتظامی آفیسران سے لے کر ٹیچنگ اسٹاف کی بھرتیوں تک کے لیے سفارشوں کی بھرمار کردی جس کے نتیجے میں ہر طرف تنزلی اور گراوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔
جس طرح بلوچستان میں عام انتخابات منعقد کروائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح بلوچستان میں وائس چانسلرز کی تقرریاں بھی کی جاتی ہیں اس کی ایک واضع مثال جامعہ بلوچستان کی سابق اور بدنام زمانہ وائس چانسلر کی تقرری کا ہے جسے میرٹ اور قوائد و ضوابط کے برعکس ’’اوپر والوں ‘‘ کی حکم اور ہدایت پر تعینات کیاگیا جس نے اپنے تین سالہ دور میں نہ صرف یونیورسٹی کو ایک بہت بڑے مالی اور انتظامی بحران میں مبتلا کردیا بلکہ انہوں نے جو تنخواہیں یونیورسٹی سے وصول کی ہیں اس پر بھی بڑے سوالات اٹھ رہے ہیں اور خوفناک اعتراضات سامنے آرہے ہیں آڈٹ پیرا کے مطابق موصوف نے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی منظور کردہ سیلری پیکج سے ہٹ کر بہت بھاری تنخواہ اور مراعات یونیورسٹی کے خزانے سے اپنے ناجائز صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وصول کیے ہیں واضع رہے یہ پریکٹس بلوچستان کے تمام جامعات میں دن دھاڑے ہورہے ہیں، جہاں وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز و دیگر اپنی فیکس اور منظور شدہ سیلری پیکج سے بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات وصول کررہے ہیں اور سالانہ کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ متعلقہ جامعات پر ڈال کر ان کی مالی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں لہذا بلوچستان کے تمام جامعات کی ایک مکمل، صاف و شفاف آڈٹ کروانا انتہائی ضروری ہے اس کے ساتھ اس کا رپورٹ پبلک بھی ہونا انتہائی ضروری ہے تا کہ پتہ چلے کہ کس نے کس طرح جامعات پر معاشی وار کیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد باقی تینوں صوبوں نے اپنی اپنی صوبائی ہائیرایجوکیشن کمیشن قائم کرکے جامعات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک جدید مکینزم اور طریقہ کار وضع کردیا لیکن بلوچستان حکومت نے اپنی جامعات کو چلانے کے لیے کوئی مربوط و مضبوط مکینزم بنائی اور نہ صوبائی ہائیرایجوکیشن کمیشن کی تشکیل کرسکی ،حالانکہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے جب جامعات چانسلر(گورنر) کے ماتحت تھے تو ان کی حالت اتنی پتلی اور بُری نہیں تھی نہ اس طرح کی سیاسی مداخلتیں ہوتی تھیں یعنی تب سے یہ صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں ان کی تنزلی اور زوال پزیری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں انہیں دو طبقوں ایک نام نہاد عوامی نمائندے اور دوسری انتہائی کرپٹ اور عوام دشمن بیورکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔ یہ نام نہاد سیاسی ایلکٹیبلز نہ خود یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہیں اور نہ جامعات کے ڈھانچے، ان کی ہئیت، ہائیرایجوکیشن اور تحقیقی اداروں کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہیں ان کی پوری سیاست یا تو یونیورسٹیوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا یا پی ایس ڈی پی اور ایم پی اے فنڈز کے لیے بلیک میلنگ کرنا ہے جو بدعنوانی اور اقرباپر وری کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ باپ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ان اراکین اسمبلی کو تقریبا 700 ارب روپے کی ایک خطیر رقم دی گئی تھی لیکن زمین پر ایک روپے کا ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ اگر اتنی بڑی رقم اعلیٰ تعلیم، انسانی ترقی اور تحقیق پر خرچ کئے جاتے تو شاید آج بلوچستان کافی بدل چکا ہوتا لیکن اس نظام اور طرز حکمرانی میں ترقی اور تحقیق نہیں بلکہ لوٹ مار، بندربانٹ، ذلت اور رسوائی ہے۔ چونکہ بیوروکریسی ایک نیا حکمران طبقہ ہے اور پالیسی سازی میں حاوی ہے یوں ہائیرایجوکیشن کا شعبہ مکمل طور پر ان کی گرفت میں چلا گیاہے جو انتہائی ڈھٹائی سے جامعات اور ان کے پروفیسروں کو خزانے پر سب سے بڑا بوجھ سمجھتے ہیں اس لیے صوبائی بیوروکریسی جامعات کے اساتذہ اور پروفیسروں کی تنخواہوں اور الاونسز کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جامعات میں اعلیٰ سطح پر انتہائی بدانتظامی اور مالی بے ضابطگیا ں پائی جاتی ہیں لیکن جامعات کے تمام اساتذہ، پروفیسرز اور ملازمین اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جس نے کوئی غلط کام کیا ہے یا ادارے کو مالی نقصان پہنچایا ہے میرٹ کی پامالی کی ہے ۔ اس کے خلاف آزادانہ تحقیقا ت اور منصفانہ کاروائی ہونی چاہیے حالانکہ حکمرانوں کی اپنی اصلیت کا ہر ایک کو پتہ ہے کہ بلوچستان کو شیر مادر کی طرح کون لوٹ رہاہے۔ ہر روز سیاسی اشرافیہ ایلیکٹیز اور بیوروکریسی کی اپنی شایانہ اخراجات بدعنوانی وزرا کی موج مستیاں، کرپشن اور لوٹ مار کی غضب کہانیاں میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں لیکن انہیں اپنی لوٹ مار اور کرپشن نظر نہیں آتی، دوسری طرف حکومت کے پاس کنٹونمٹس، چیک پوسٹ اور سیکورٹی میں بے تحاشا اضافے کے لیے پیسے اور وسائل ہیں۔ وزرا کی شاہ خرچیوں اور نوکرشاہی کی عیاشیوں کے لیے بجٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو سالانہ 450 ارب روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کے لیے خزانہ خالی نہیں ہے تاکہ وہ لوگوں کو بھکاری بنائیں لیکن اساتذہ کو تنخواہوں یا تحقیق و اعلیٰ تعلیم کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے ہر سال ایچ ای سی کی بجٹ پر کٹ لگائی جارہی ہے حالانکہ تعلیم اور صحت کی سہولیات، انفراسٹرکچر کے دو ایسے ستون ہیں جن پر کسی معاشرے کی سماجی اور معاشی ترقی کا تمام انحصار ہوتا ہے۔ مروجہ نظام میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیاں وسائل کو اس طرح چاٹ جاتے ہیں کہ تعلیم اور صحت کے لیے کچھ بچتاہی نہیں۔
یہ اقدامات بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں تعلیم کو مزید تنزلی کی جانب لے جانے کے مترداف ہونگے۔ اس عمل کے خلاف سخت عوامی مزاحمت اور جد و جہد کی اشد ضرورت ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی و نام نہاد جمہوری پارٹیاں اور طلبا تنظیمیں صرف اخباری بیانات اور ’’شدید تشویش ‘‘کے اظہار تک محدود ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کوئی عملی کردار نظر نہیں آ رہاہے۔ صوبے کے تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے مکمل تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اور سماجی تبدیلی کی دعوئے دار قوتیں صرف ’’تشوش‘‘ کا اظہار کررہی ہیں جو خود ایک تشوناک عمل ہے انہیں اس ناانصافی اور معاشی قتل کے خلاف اور جامعات کو بچانے کے لیے جامعات کے ملازمین اور پروفیسروں کے ساتھ شانہ بشانہ عملی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
یونیورسٹیوں کا یہ بحران دراصل اس ریاست ، حکومت، سیاست اور طرز حکمرانی کا بدترین بحران ہے جو اپنا اظہار اس بھیانک شکل میں کررہا ہے ۔اس کا کوئی وقتی اور کاسمیٹک حل ممکن نہیں البتہ کاسمیٹک حل سے اس بحران کی شدت میں وقتی طور پر کمی آئیگی لیکن جب بحران دوبارہ ابھرے گا تو مزید شدت اختیار کرے گی، لہذا اس کا حل صرف اور صرف جراحی ہے اس سیاسی ، معاشی اور سماجی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہے کیونکہ اس بدعنوان، فرسودوہ اور گلے سڑے نظام میں کوئی حل، کوئی ریلیف کوئی اصلاح ممکن ہی نہیں۔ اس نظام میں صرف ظلم ہوگا، استحصال اور لوٹ کسوٹ ہوگی، معاشی حملے ہونگے اور ریاستی جبر ہوگا۔