زندگی اور غربت نے انہیں تلوار کے زخم سے زیادہ بڑے گھاؤ دیے لیکن ان کے چہرے پر اداسی نے کبھی ڈیرے نہیں ڈالے_
بستی کے ان لازوال کرداروں نے نہ ہی قدرت سے اور نہ ہی کسی مولوی اور مکھیا سے اپنے دکھوں کی شکایت کی_
اس خاندان کے مرد اور عورتوں نے ہمیشہ محنت کے خون پسینے سے عزت کی روٹی حاصل کی ہے_ ہر مشکل اور پریشانی کا بہادری سے مقابلہ کیا، جاڑک اس حالت میں بھی مسکرانے کے فن سے غافل نہیں ہے_
کل صبح جب میں اسکی تلاش میں نکلا تو مجھے وہ اس ایریے میں کہیں نظر نہیں آیا_
عصر کی اذان کے بعد میں دوبارہ اسکی تلاش میں چل پڑا_ بیکری سے نکلتے ہی باٹا شاپ کے سامنے مرغیوں کے پنجرے کے بغل میں وہ مجھے ننگے پیر کھڑا نظر آیا_
اسکے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی اور وہ ہیلی کاپٹر کے پنکھے کی طرح اپنا سر تیز تیز گھما رہا تھا_میرے اندر یہ ڈر بھی پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس سے ملتے ہی اپنی لاٹھی سے وہ میری پٹائی کر دے_ جب میں اسکے قریب پہنچا تو وہ لاٹھی ہاتھ میں تھامے لگاتار اپنا سر گھما رہا تھا_ اسکی نظر مجھ پر پڑتے ہی وہ مسکرانے لگا اور میں نے اسکی طرف پیار سے ہاتھ بڑھایا، “چلو چائے پیتے ہیں_”
سڑک پار کر کے ہم دونوں ہوٹل کے بچھے قالین پر بیٹھ گئے_
” دو چائے اور ساتھ میں کیک بھی لیتے آنا”
” جی ابھی چائے نہیں بنی ہے اور کیک کی پوٹلی بھی خالی ہے_”
جاڑک میری طرف گھورنے لگا، “جاڑ جوس پیوگے؟”
” میں تو زیادہ چائے پینے کا شوقین ہوں، اب تھرماس خالی ہے تو جوس بھی چلے گا_”
” میں نے پستہ زعفرانی جوس کا ڈھکن اپنے ہاتھوں سے کھول کر اسکی طرف بڑھایا اس نے اسے جام کی طرح پینا شروع کیا،میری یہ بات سن کر اسکی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک اٹھیں اور اسکے لبوں پر جگنو جگمگانے لگے_
” پتہ ہے تمہاری شادی کا پنڈال اس بستی کی سب سے خوبصورت پال بندی کی تقریب تھی_ دور دور سے بڑی تعداد میں لوگ آئے تھے_ آپکی والدہ ماسی مہناز اور ماسی شہناز کے بچے تیرا بڑا بھائی شکیل کچا اور تمہارے کچھ جگری یار اس رات رقص میں دھمال مچا رہے تھے_ اس پال بندی سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں کسی محفل کو اتنا انجوائے نہیں کیا_” وہ مسکرا کر بولنے لگا،
” ہاں،گھر میں پہلی بار شادی کے رنگ برنگے قمقموں نے ساری بستی میں چراغاں کر دیا تھا_ مجھے یہ بتاؤ تم آج یہاں اتنی دور کیوں آئے ہو؟”
” میں پچھلے چودہ سال سے ابابیلوں کی رنگین کوٹھی سے بچھڑ جانے کا غم جی رہا ہوں، میں بھی تمہاری طرح اپنے ہی شہر میں پرایا بن چکا ہوں_”
” قاسو زندہ ہے یا مر گیا؟” جاڑک نے پنکھے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا_
” قاسو کون؟”
” جو دبئی میں ہے_”
” سالوں پہلے عید والے دن کوہ باتیل کی چڑھائی پر تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، تم لوگ پیدل جارہے تھے یا موٹر سائیکل کسی گاڑی سے ٹکرائی تھی؟”
” ہم موٹرسائیکل سے جارہے تھے اور ایک گاڑی سے جا ٹکرائے_”
” وہ کس قسم کی گاڑی تھی جس سے تم ٹکرائے تھے، موٹرسائیکل کون چلا رہا تھا؟”
” میں تو نشے میں مدہوش تھا، لوگوں نے بتایا بند گاڑی تھی جو ہوا میں اڑتی ہے_ نہیں میں درمیان میں بیٹھا تھا، اب پتا نہیں موٹر سائیکل میرا دوست موٹا چلا رہا تھا یا فیض کا رشتے دار_ انہیں زیادہ زخم نہیں آئے، بجلی صرف مجھ پر گری_ ہوش میں آنے کے بعد ماں مجھے پہلوان کے پاس کراچی لیکر گئی جو ہاتھ پیر کی ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے میں ماہر تھا_
تین سال تک میں کراچی میں زیرعلاج تھا_
وہاں ہڈیوں کا ڈاکٹر بہت زیادہ فیس چارج کرتے ہیں اس لیے میں پہلوان کے اکھاڑے میں زندگی کی کشتی لڑنے کی تیاری کرنے لگا_
ہاتھ اور کاندھے کی ہڈی تو ٹھیک طرح سے نہیں جڑ پائی، شکر ہے جسم کے شجر سے درد کا موسم گزر گیا_
آج بھی جب میں رات کو سوتا ہوں تو دوسرا کروٹ نہیں بدل سکتا_ شکر ہے شادی کے بعد میرا ایکسیڈنٹ ہوا نہیں تو ہاتھ پیر ٹوٹ جانے کے بعد میری بارات دھوم دھام سے دلہن کے گھر نہیں جاتی_ یہ رفیق کا گھر ہے ناں! منیر نے مجھے بتایا تھا_”
“گوادر آنے کے بعد کتنے برس بستر پر پڑے رہے؟” میں نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا_
” مدتوں تک میں صرف چلنے پھرنے کی آرزو کرتا رہا، میری ماں نے میرے علاج پر اپنا سب کچھ دان کر دیا_ وہ مجھ سے بےانتہا پیار کرتی تھی،پتا ہے وہ مجھے دوبارہ جنم دینے کی سوچ رہی تھی لیکن میری پیدائش سے پہلے چل بسی_”
” تم یہاں کس سے ملنے آئے ہو؟” اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا_
” بھائی کو کچھ دنوں سے بخار تھا میں اسکے لیے سنگترے اور کیلے خریدنے جارہا تھا اچانک تم سے ملاقات ہوگئی_ تم رات کو گھر کیوں نہیں جاتے؟” میں نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا_
“کوئی گھر سے نکال دے تو گھر جانے کو دل نہیں کرتا، اسی بازار کے کسی دکان کی صحن پر لیٹ جانے کو جگہ ملتی ہے تو ڈھیر ہوجاتا ہوں_”
” گھر سے کس نے نکالا؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بول پڑا،
” گھر کی دیواروں نے میرے لیے گھر کا دروازہ بند کر دیا_”
” تمہارا بڑا بھائی شکیل تو اسی گھر میں رہتے ہیں وہ تجھے گھر کیوں نہیں لیکر جاتے؟”
یہ سن کر وہ زور سے ہنس پڑا اور بولنے لگا،
” شکیل نے عورتوں والے کپڑے پہن رکھے ہیں یہاں سب موالی میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ تمہارا بھائی ہیجڑا بن گیا ہے_”
” تمہیں کس نے بتایا اس نے عورتوں والا بلوچی لباس پہن رکھا ہے؟ “
” میں نے خود اپنی آنکھوں سے اسے عورتوں کے کپڑے پہنے بلدیہ کے قریب جاتے ہوئے دیکھا تھا_” وہ پھر ہنس پڑا
اسکی ہنسی کی خنک سن کر مجھے اپنے دوست زاہد کی بات یاد آگئی_
شکیل سے جب کسی نے پوچھا جاڑک ایسا کیوں ہے؟ ہیلی کاپٹر کے پنکھے کی طرح پہلے اپنا سر ہلاتا ہے پھر اپنے پنکھ پھیلائے بازار کے چکر کاٹتا ہے تو اس پر شکیل ہنس کر بولا کہ اس نے بچپن میں پڑنی مچھلی زیادہ کھائی تھی اس لیے اسے ایسے دورے پڑتے ہیں_
یاد رہے جاڑک کی دماغی حالت سی پیک کے وارث شکیل کچا سے پہلے خراب تھی لیکن مجھے اس کا برتاؤ شکیل سے بہتر محسوس ہوا_ کرسٹل اور آئس نشے کی وجہ سے یہ دونوں بھائی ندی کے دو کناروں کی طرح گوادر پورٹ کے پہلو میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں_ ایک موسی موڑ سے جیٹی اور پدی زر تک گھومتا ہے دوسرا بلال مسجد سے لیکر شہدائےجیونی چوک اور پرانے بس اسٹاپ تک زندگی کی ناؤ کھینچتا رہتا ہے_ منشیات کے اس زہر نے اس شہر کے بےشمار نوجوانوں کو ڈسا ہے_
جاڑک نے ایکدم سے میرا ہاتھ جھٹک کر کہا، “تم آج کل یہاں کیا کر رہے ہو؟”
” ابابیلوں کی رنگین کوٹھی تو 2010ء کی بارشوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، اب یہاں نزدیک سرکاری کوارٹر میں پناہ لے رکھا ہے_ جاڑ تم کھانا کہاں کھاتے ہو؟”
” آس پاس کے گھروں سے نہیں مانگتا بس کوئی جان پہچان کا یار مل جاتا ہے تو بھوک جلدی مٹ جاتی ہے_ تم کل میرے واسطے ایک جوڑا پرانا کپڑا لیتے آنا، تم دیکھ رہے ہو ناں، میں نے قمیض اور ٹاؤزر پہنا ہے، میرے سارے کپڑے چوری ہوگئے جوتے بھی چور لیکر بھاگ گیا_”
” میں کل صبح تمہارے لیے کپڑے اور جوتے لیکر آؤں گا، بس جوتوں کو موچی کے ہاں سلائی کرنا پڑے گا_”
حادثے کے بعد جاڑک دوبارہ کوہ باتیل کی چڑھائی پہ نہیں گیا، میں نے جب اسے بتایا کہ اس دفعہ بارشوں میں بند سے لیکر دروزگ تک پانی ہی پانی تھا_ یہ سن کر خوشی کے مارے اسکی آنکھوں میں ڈالفن مچھلیاں غوطے کھانے لگیں اور اس نے ڈالفن کی طرح سر پانی سے نکالتے ہوئے کہا،
” تم جسکے ساتھ گھومتے ہو، تم اسے نہیں مانتے پھر کیوں اسکی گاڑی میں بیٹھتے ہو؟”
” کس کی بات کررہے ہو؟”
” کمانڈو کی پیٹھ پیچھے جس کی تم برائی کرتے ہو” یہ کہتے ہی اس نے پانی کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں پی لیا_
جاڑک بچپن سے گدھا گاڑی چلاتا تھا، پہلے ملاشعبان کے ساتھ سمندر کنارے مچھلیاں لادتے اور اتارتے تھے پھر وہ ایک لمبے عرصے تک اپنی گدھا گاڑی پرانے بس اسٹاپ یکمشت گدھا گاڑی یونین کے قافلے میں کھڑی کرتا_
وہ گھروں کا راشن، سیمنٹ، بلاک اور کبھی کبھار پانی کے گیلن بھی بھرتا تھا_
وہ صبح گھر سے نکلتا اور سورج ڈوبنے کے بعد گھر لوٹتا_ اسکی ماسی لسی اور رس گلے کے گولا گنڈے رات کو تھیلوں میں باندھ کر برف کی ٹینکی میں جماتے اور صبح جاڑک اور شکیل کی ماں ماسی شرک (شریفہ) انہیں واٹر کولروں میں بھر کر سلور مسجد، کماڑی محلہ اسکول اور اقراء اسکول میں بیچتی تھی_
رس گلے کا نام لیتے ہی لبوں پر جیسے شہد ٹپکتا ہے، اس گنڈے میں پستہ اور بادام کے ٹکڑے بھی شامل تھے_
مجھے یہ گھر، گلیاں اور سیاہ چمڑی والے لوگ خدا کی طرح پیارے ہیں، ملاشعبان کا گدھا دو رنگ بستی کا گھوڑا تھا_ اسے بستی کا ہر بچہ اس طرح سے دیکھتا تھا جس طرح لوگ گھنٹوں تاج محل کو دیکھتے ہیں_
” وہ جگہ تم نے خریدی ہے؟ اور تم زرگر کے پاس کیا کرنے جاتے ہو وہاں تمہارا کیا کام؟” جاڑک نے اپنے ہاتھ کی لاٹھی فرش پر مارتے ہوئے کہا_
” نہیں کرائے کی جگہ ہے، ماہانہ سیلری سے اسکی کٹوتی ہوتی ہے_ زرگر (سونار) کا بیٹا میرا دوست ہے اس لیے میری اس سے سلام دعا ہے_”
” اچھا، تم شاعر کے گھر کے سامنے کیوں گزرتے ہو؟”
” کون شاعر؟”
” وہ جو ڈرامے کرتا ہے_”
” سرفراز؟”
” نہیں جسکے لمبے بال ہیں سرخ رنگ کی موٹر سائیکل چلاتا ہے”
” اب سمجھا تم شاید غلام محمد یا ناگمان مجنوع کی بات کررہے ہو جو ماسٹر دلپھل کی فلموں میں کام کرتے ہیں_جاڑ تم فلمیں دیکھتے ہو؟”
“تاج محل سنیما میں بہت ساری فلمیں دیکھیں، گیٹ کیپر کے پاس میری انٹری فری تھی_میرا ہیرو سلطان راہی تھا، اداکارہ انجمن کے بعد مجھے ریما بھی بہت اچھی لگتی تھی_ باغی میرا پسندیدہ فلم ہے_ اس زمانے میں احمد خان کے گھر کے پاس دوسو روپے میں بڑھیا کلےمور ملتی تھی، مجھے تاش کھیلنے کا بھی بہت شوق تھا، سنیما کے پردے کے پچھواڑے ہمارا جوا خانہ تھا، بہت سارے پیسے جیتے_”
” کبھی ہارے بھی_”
” ہاں، زندگی ہار گیا_” اس نے مسکرا کر کہا_
” اچھا بتاؤ تم ہیلی کاپٹر کے پنکھے کی طرح اپنا سر کیوں گھماتے ہو؟”
” میں اب اس سیلاب کے ریلے میں بہت تھک گیا ہوں، میں چاہتا ہوں کوئی ہیلی کاپٹر مجھے ریسکیو کرے لیکن میں آسمان کی طرف دیکھتا ہوں تو ہیلی کاپٹر میرے سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں_”
جب ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو ایک سفید رنگ کا کتا جاڑک کے پیروں سے چپک گیا، وہ اسکے ساتھ کھیلنے لگا_ بازار کے سارے لوگ ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے، وہ کہنے لگا شاید کسی رات میں نے اسکی طرف روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا اس لیے یہ میرے ساتھ محبتیں بانٹ رہا ہے_ میں دیر تک کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا وہ کتا ڈائمنڈ ہوٹل تک جاڑک کے اوپر چھلانگیں مارتا بوسے لیتا جارہا تھا_