خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات سے متعلق نہایت تشویشناک خبریں سامنے آئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ صوبے کی سرکاری جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ جامعات کے واجبات 6 ارب روپے سے بڑھ گئے ہیں، جبکہ خسارہ ایک ارب 77 کروڑ سے تجاوز کر گیا ہے۔ سنتے ہیں کہ نصف درجن جامعات ایسی ہیں، جن میں انتظامی امور معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ صوبے کی کئی جامعات، پچھلے کئی مہینوں سے، اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
اس مالی بحران کے تناظر میں کم وبیش 20 سرکاری جامعات کے سر پر بندش کی تلوار لٹک رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں یہ صورتحال نئی نہیں ہے۔ چند برس قبل، جب صوبے اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تب بھی ایک وقت آیا تھا جب کئی جامعات دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں۔ کچھ جامعات نے قرض کے لئے بنکوں سے رجوع کیا۔ لیکن بنکوں نے انہیں قرض دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ سرکاری یونیورسٹیاں کئی سالوں سے مسلسل مالی دباؤ کا شکار ہیں، لیکن اس صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی ہے۔
اب ذرا بلوچستان کی جامعات پر نگاہ ڈالیں۔ یہاں بھی حالات ابتر ہیں۔ یہاں کی سرکاری یونیورسٹیاں گزشتہ کئی برس سے مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ پچھلے کئی ماہ سے صوبے کی معروف درس گاہ، بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ اپنی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے جواز پر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بلوچستان یونیورسٹی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند کرنا پڑی تھی۔ آج بھی صورتحال نازک ہے۔ جامعہ کی حدود میں احتجاج پر پابندی عائد ہے، سو اساتذہ جامعہ بلوچستان کے باہر دھرنا دیے بیٹھے رہتے ہیں۔ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سرفراز بگٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ جامعات کو مالی دباؤ سے نکلنے میں مدد دیں گے۔ غالباً کسی ون ٹائم گرانٹ کا اعلان بھی ہوا تھا۔ تاہم ابھی تک کوئی مستقل اور طویل المدت حل سامنے نہیں آ سکا ہے۔
اس تناظر میں سندھ اور پنجاب کی جامعات کے حالات نسبتاً بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم واقفان حال بناتے ہیں کہ یہاں بھی یونیورسٹیاں مالی دباؤ کا شکا ر ہیں۔ کچھ دن پہلے پنجاب کی چند سرکاری جامعات کے وائس چانسلر صاحبان سے اس موضوع پر میری بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آمدنی اور اخراجات کے مابین توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ مہینے کے آخری دنوں میں جب تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو انہیں باقاعدہ جوڑ توڑ کرنا پڑتا ہے۔
نئی جامعات کے مقابلے میں پرانی جامعات کو زیادہ دقت کا سامنا ہے۔ وجہ یہ کہ انہیں تنخواہوں کے ساتھ ساتھ پنشن کی ادائیگی کا بھاری پتھر بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ آتی جاتی حکومتیں سالانہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان تو کرتی ہیں، لیکن جامعات کے فنڈز میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ سو حکومتی اعلان کا سارا بوجھ یونیورسٹیوں کو ڈھونا پڑتا ہے۔
یقیناً یہ سب راتوں رات نہیں ہو گیا۔ سرکاری جامعات کو ابتری کے اس دہانے تک پہنچنے میں مہینوں یا غالباً برسوں لگے ہوں گے۔ اس صورتحال کی کچھ ٹھوس وجوہات بھی ہوں گی۔ ہمارے ہاں رواج چل نکلا ہے کہ ہر برے اور منفی کام کا ملبہ حکومتوں اور سیاستدانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یقیناً حکومتیں بھی جامعات کی اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔ لیکن کیا جامعات کے سربراہان اور دیگر عہدے داران پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں؟
اس کا جواب یقیناً ہاں میں ہے۔ جب ایک صاحب علم اور تجربہ کار شخص کو وائس چانسلر کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ حالات کا رونا رونے کے بجائے اس ادارے کو مالی طور پر مستحکم کرے اور خود مختاری کی راہ پر گامزن کرے۔ یقیناً ہمارے ہاں نہایت فعال وائس چانسلر صاحبان موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ تاہم ایسے بھی تھے ( اور ہیں ) جنہیں کارکردگی سے زیادہ اپنی تصویر اور تشہیر کی فکر کھائے جاتی ہے۔ یا جن کا بیشتر وقت اپنے ذاتی تعلقات کی ترویج میں صرف ہوتا ہے۔
ایسے میں جامعات کیسے آگے بڑھ سکتی ہیں؟ اس تناظر میں ضروری ہے کہ جب ہم جامعات کی مالی ابتری کا رونا روتے ہیں تو بیڈ گوورننس کا ذکر بھی کریں۔ مثال کے طور پر تقریباً ایک سال قبل بلوچستان یونیورسٹی کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ کمیٹی نے یہ جائزہ لیا کہ جامعہ بلوچستان اس حال تک کیونکر پہنچی۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہاں پر دھڑا دھڑ اور غیر ضروری بھرتیاں اور تعیناتیاں کی گئیں۔
اس عمل سے جامعہ پر مالی دباؤ بڑھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ تعیناتیوں اور ترقیوں کے عمل میں طے کردہ قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ نا اہل لوگوں کو خوب نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے خلاف ضابطہ اقدامات کے نشانات ملے۔ مطلب یہ کہ ادارے یوں ہی تباہی کے کنارے پر نہیں پہنچ جاتے۔ اداروں میں موجود لوگ بھی اس تباہی کے حصہ دار ہوتے ہیں۔
اس سارے قضیے میں حکومتوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو گیا تھا۔ اس صورتحال میں یہ وفاق سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی ( اور ہے ) کہ سرکاری جامعات کو مناسب فنڈز مہیا کر کے انہیں خود مختار بنانے میں مدد فراہم کریں۔ اگرچہ صوبائی حکومتوں نے اپنی اپنی استعداد کار کے مطابق اپنے صوبے کی جامعات کو فنڈز دیے، لیکن کسی بھی صوبے نے اس معاملے کو اولین ترجیح نہیں بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک جامعات کی مالی مشکلات کا کوئی مستقل حل نکل سکا۔
اب ذرا مالیاتی پہلو کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ حکومتوں کی ترجیحات کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ ملک بھر کی درجنوں جامعات مستقل وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں۔ لیکن دیگر مسائل میں الجھے ارباب اختیار کے پاس ان تعیناتیوں کے لئے وقت نہیں ہے۔ یہ صورتحال بھی نئی نہیں ہے۔ آج سے دس سال پہلے بھی حکومتوں کی ترجیحات کا یہی عالم تھا۔ آج بھی یہی حال ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا کی 24 سرکاری جامعات مستقل وائس چانسلروں سے محروم ہیں۔
8 جامعات ایسی ہیں جو پچھلے ایک سال سے وائس چانسلر کے بغیر چل رہی ہیں۔ پنجاب کی 25 سے زائد جامعات مستقل وائس چانسلروں سے محروم ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ برصغیر کی قدیم ترین جامعہ پنجاب میں ایک سال سے وائس چانسلر کی تعیناتی نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی ذمہ داری یقیناً ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو تعیناتی کا عمل شروع ہوتے ہی سٹے لینے کے لئے عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اس مسئلے کا کوئی مستقل اور بروقت حل ہونا چاہیے۔
اسی طرح سندھ کی ایک جامعہ بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے بارے میں معلوم ہوا کہ دو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن وہاں پر وی سی کی تعیناتی نہیں ہو سکی۔ سنتے ہیں کہ یونیورسٹی کی حالت یہ ہے کہ سینئر اساتذہ اور پروفیسر موجود ہی نہیں ہیں۔ پارٹ ٹائم اور جونئیر اساتذہ کے ذریعے ساری یونیورسٹی چل رہی ہے۔ جب جامعات کا نظام اس طرح چلے گا، تو یہ جامعات کیا خاک چلیں گی۔ اس صورتحال پر بس انا اللہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
( یہ تحریر ہم سب کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے )